Paraphrase of the Stanzas
With Reference to the Context
Chapter No: 5
Daffodils
گل نرگس۔ آبی نرگس
(By William Wordswoth)
Stanza:
I wandered lonely as a cloud,
That floats on high o’er vales and hills,
When all at once I saw a crowd,
A host, of Golden Daffodils;
Beside the lake. Beneath the trees,
Fluttering and dancing in the breeze.
ترجمہ:۔ میں تنہا ایک بادل کی طرح بے مقصد گھوم رہا تھا جو وادیوں اور پہاڑوں پر تیرتا ہے۔
جب کہ اچانک میں نے ایک مجمع دیکھا۔ یہ سنہری آبی نرگس کے پھولوں کا ہجوم تھا۔ یہ جھیل کے کنارے کے ساتھ ساتھ درختوں کے نیچے باد نسیم میں پھڑپھڑا رہے اور ناچ رہے تھے۔
Reference:
This stanza has been taken from the poem ‘Daffodils’ written by ‘William Wordsworth’.
Context:
This poet is known as the poet of nature. The beautiful scenes of nature have a great attraction for him. The poet describes a pleasant experience of his life. One day when he was enjoying a walk in the countryside, he saw the daffodils of beautiful daffodils growing beside the lake.
یہ شاعر، شاعر فطرت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ فطرت کے خوبصورت مناظر اس کے لیے خاص دلکشی کا باعث ہیں۔ شاعر اپنی زندگی کا ایک خوبصورت تجربہ بیان کرتا ہے۔ ایک دن جب وہ دیہاتی علاقے میں سیر کا لطف اٹھا رہا تھا تو اس نے جھیل کے کنارے آبی نرگس کا منظر دیکھا۔
Paraphrase:
In this stanza, the poet describes the pleasant sight of beautiful daffodils. Once he was walking alone in the countryside. When he reached near the bank of a lake, he saw a large number of golden daffodils growing along the bank of the lake under the trees. The flowers were moving and dancing in the breeze.
اس قطعہ میں شاعر خوبصورت آبی نرگس کے پھولوں کا خوشگوار منظر بیان کرتا ہے۔ ایک مرتبہ شاعر دیہاتی علاقے میں تنہا گھوم رہا تھا۔ جب وہ ایک جھیل کے کنارے پر پہنچا۔ تو اس نے سنہری آبی نرگس کے پھولوں کی ایک بڑی تعداد دیکھی جو جھیل کے کنارے کے ساتھ ساتھ درختوں کے نیچے ہو اگے ہوئے تھے اور وہ پھول باد نسیم میں پھڑ پھڑا رہے تھے اور ناچ رہے تھے۔
Stanza:
Continuous as the stars that shine,
And twinkle on the milky-way,
They stretched in never- ending line,
Along the margin of a bay
Ten thousand saw I at a glance,
Tossing their heads in sprightly dance,
ترجمہ:۔ آبی نرگس کے پھول لگاتار ان ستاروں کی مانند جو کہکشاں میں ٹمٹماتے اور چمکتے ہیں، جھیل کے کنارے کبھی ختم نہ ہونے والی قطار میں پھیلے ہوئے تھے۔ میں نے ایک ہی نظر میں دس ہزار( ایک بہت بڑی تعداد) نرگس کے پھول دیکھے جو اپنے سروں کو خوشی سے ہلا رہے تھے اور ناچ رہے تھے۔
Reference:
This stanza has been taken from the poem ‘ Daffodils’ written by ‘William Wordsworth’.
Context:
The poet describes a pleasant experience of his life. Once he was walking along the bank of a lake. He saw a large number of daffodils. They were shining like the stars in the milky- way. These flowers were fluttering and dancing in the breeze.
شاعر اپنی زندگی کا ایک خوشگوار تجربہ بیان کرتا ہے۔ ایک مرتبہ وہ ایک جھیل کے کنارے ٹہل رہا تھا۔ اس نے ابی نرگس کے پھولوں کی ایک بڑی تعداد دیکھی۔ وہ کہکشاں میں ستاروں کی مانند چمک رہے تھے۔ یہ پھول صبح کی ٹھنڈی ہوا میں پھڑ پھڑا رہے تھے اور ناچ رہے تھے۔
Paraphrase:
The poet was walking along the bank of a lake. He saw thousands of daffodils on the side of the lake in an endless row. The heads of those flowers were moving as if they were dancing in a happy mood. The endless row looked like shining stars in the milky-way.
شاعر ایک جھیل کے کنارے ٹہل رہا تھا۔ اس نے جھیل کے کنارے ایک ختم نہ ہونے والی قطار میں ہزاروں نرگس کے پھول دیکھے۔ وہ پھول اپنے سروں کو ہلا رہے تھے جیسا کہ وہ خوشی کی حالت میں ناچ رہے ہوں۔ پھولوں کی وہ ختم نہ ہونے والی قطار کہکشاں میں چمکتے ہوئے ستاروں کی مانند دکھائی دیتی تھی۔
Stanza:
The waves beside them danced; but they,
Out-did the sparkling waves in glee;
A poet could not but be gay,
In such a jocund company!
I gazed–and–gazed– but little thought
What wealth the show to me had brought.
ترجمہ:۔ ندی کی لہریں نرگس کے پھولوں کے ساتھ ناچتی تھی لیکن وہ خوشی میں چمکتی ہوئی لہروں سے بڑھے ہوئے تھے۔ ایک شاعر اس قسم کی خوشیاں منانے والوں کے ساتھ خوش ہوے بغیر نہ رہ سکا۔ میں لگاتار دیکھتا رہا اور یہ بالکل نہیں سوچا کہ اس منظر نے مجھے خوشی اور امن کی کتنی زیادہ دولت عنایت کی ہے۔
Reference:
This stanza has been taken from the poem ‘ Daffodils’ written by ‘William Wordsworth’.
Context:
The beautiful scenes of nature have a great attraction for the poet. Once he was walking in a countryside. He reached along the bank of a lake. He saw a large number of golden daffodils growing there. He was very happy to see the sight of beautiful daffodils. The scene left a permanent impression on the mind of the poet.
فطرت کے خوبصورت مناظر شاعر کے لیے بڑی کشش کا باعث ہیں۔ ایک مرتبہ وہ دیہاتی علاقے میں گھوم رہا تھا۔ وہ ایک ندی کے کنارے پہنچا۔ اس نے سنہری نرگس کے پھولوں کی ایک بڑی تعداد دیکھی جو وہاں پر اگے ہوئے تھے۔ وہ نرگس کے خوبصورت پھولوں کا منظر دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس منظر نے شاعر کے دماغ پر ایک مستقل اثر چھوڑا۔
Paraphrase:
In this stanza, the poet describes that the waves of the stream were dancing beside the daffodils, but the daffodils looked happier than the waves. A poet could not help feeling happy in the company of such merrymakers. He went on looking at those daffodils and did not think what wealth of joy and peace that scene had brought to him.
اس قطعہ میں شاعر یہ بیان کرتا ہے کہ ندی کی لہریں نرگس کے پھولوں کے ساتھ ناچ رہی تھی لیکن نرگس کے پھول چمکدار لہروں سے زیادہ خوش دکھائی دیتے ہیں۔ ایک شاعر ایسے خوشیاں منانے والوں کے ساتھ خوش ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ ان نرگس کے پھولوں کو لگاتار دیکھتا رہا اور وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ اس نظارے نے اسے خوشی اور امن کی کتنی زیادہ دولت عنایت کی ہے۔
Stanza:
For oft when on my couch I lie,
In vacant or in pensive mood,
They flash upon that inward eye,
Which is the bliss of solitude;
And then my heart with pleasure fills,
And dances with the daffodils.
ترجمہ:۔ شاعر کہتا ہے کہ اکثر اوقات جب میں اپنے پلنگ پر لیٹتا ہوں۔ اور میں غوروخوض کی حالت میں ہوتا ہوں تو وہ پھول میری اندرونی آنکھ( دل) پر چمکتے ہیں یا مجھے ان کا خیال آتا ہے جو میری تنہائی میں خوشی کا باعث بنتے ہیں اور پھر میرا دل خوشی سے بھر جاتا ہے۔ اور ان نرگس کے پھولوں کے ساتھ ناچنے لگتا ہے۔
Reference:
These lines have been taken from the poem “Daffodils” written by “William Wordsworth”.
Context:
The poet expresses the feelings of joy and pleasure when he enjoys the sight of daffodils growing on the side of a lake. The sight leaves a permanent effect on his memory. Whenever he is alone and relaxing on his couch, he begins to think of those daffodils and then he feels extremely happy.
شاعری خوشی کے جذبات کا اظہار کرتا ہے جب وہ جھیل کے کنارےاگے ہوئے آبی نرگس کے پھولوں کے منظر سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ یہ منظر اسکے دل پر مستقل اثر چھوڑتا ہے۔ جب وہ تنہا ہوتا ہے اور اپنے پلنگ پر آرام کر رہا ہوتا ہے تووہ ان نرگس کے پھولوں کے متعلق سوچنے لگتا ہے اور پھر وہ بہت زیادہ خوشی محسوس کرتا ہے۔
Paraphrase:
The poet is very much impressed with the natural beauty of the flowers. He says that whenever he is lying in his pensive and thoughtful mood, the beautiful sight appears before him. The scene of flowers that he saw on the lake comes in front of his eyes and his heart fills with joy and begins to dance with the flowers. It is a blessing of his loneliness.
شاعر نرگس کے پھولوں کی قدرتی خوبصورتی سے بہت متاثر ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب وہ فارغ ہوتا ہے اور لیٹا ہوا سوچ وچار کی حالت میں ہوتا ہے تو ان خوبصورت پھولوں کا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے اور ان نرگس کے پھولوں کا منظر جو اس نے جھیل کے کنارے دیکھا اس کی نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے تب اس کا دل خوشی سے بھر جاتا ہے اور پھولوں کے ساتھ ناچنے لگتا ہے۔ یہ اس کی تنہائی کی بڑی خوشی ہے۔
Chapter No: 8
Stopping By Woods On A Snowy Evening
برفباری کی ایک شام جنگل کے پاس رکنا
(By Robert Frost)
Stanza:
Whose woods these are I think I know.
His house is in the village though;
He will not see me stopping here
To watch his woods fill up with snow.
یہ کس کا جنگل ہے میرا خیال ہے میں جانتا ہوں
اگرچہ اس کا گھر گاؤں میں ہے
وہ مجھے یہاں رکتا ہوا نہیں دیکھے گا
اور نہ ہی اپنا برف سے بھرا ہوا جنگل دیکھنے آئے گا.
Reference:
These lines have been taken from the poem “Stopping by woods on a snowy evening” written by Robert Frost.
Context:
The poet tells us the story of a man who is travelling to his town. When he reaches near a dark snowy woods he stops there to enjoy it.
شاعر ہمیں ایک ایسے آدمی کی کہانی سناتا ہے جو اپنے قصبہ کی طرف سفر کر رہا ہے۔ جب وہ ایک تاریک برفانی جنگل کے قریب پہنچتا ہے وہ اس کی خوبصورتی سے سحر زدہ ہو جاتا ہے اور اس کا لطف اٹھانے کے لیے وہاں رک جاتا ہے۔
Paraphrase:
The poet has stopped near the snowy woods. He first wonders who owns these woods. In the same breath, he tells us that he thinks he does know who owns them. The owner of the woods lives in a house in the village. He would not come to watch his woods. So, he would not get into trouble for trespassing on his land.
شاعر برفانی جنگل کے پاس ٹھہر گیا ہے۔ پہلے وہ حیران ہوتا ہے کہ ان جنگلات کا مالک کون ہے۔ فورا اس بیان کے برعکس وہ سوچتا ہے کہ وہ ضرور جانتا ہے کہ اس کا مالک کون ہے۔ جنگل کا مالک گاؤں کے ایک گھر میں رہتا ہے۔ وہ اپنے جنگل کو دیکھنے کے لئے نہیں آئے گا۔ اس لیے وہ اس کی زمین پر بلا اجازت داخل ہونے پر مصیبت میں نہیں پڑے گا۔
Stanza:
My little horse must think it queer
To stop without a farmhouse near
Between the woods and frozen lake
The darkest evening of the year
میرے چھوٹے سے گھوڑے کو بڑا عجیب لگتا ہے
جنگل کے پاس فارم ہاؤس کے بغیر رکھنا
جنگل اور منجمد جھیل کے درمیان
سال کی تاریک ترین شام کو
Reference:
These lines have been taken from the poem “Stopping by woods on a snowy evening” written by Robert Frost.
Context:
The poet is not alone, his little horse is with him. He psycho- analyzes his little horse and guesses he is saying something to him.
شاعر اکیلا نہیں ہے، اس کا چھوٹا گھوڑا اس کے ساتھ ہے۔ وہ اپنے جھوٹے گھوڑے کا نفسیاتی تجزیہ کرتا ہے اور اندازہ لگاتا ہے کہ وہ اسے کچھ کہہ رہا ہے۔
Paraphrase:
The poet is not alone. He has a horse, and his horse is little. He and his little horse spend a lot of time together. He psycho- analyzes his little horse and supposes his horse is thinking it strange to be stopping in the middle of nowhere, with no one in sight, with not even farmhouse nearby, and no sign of hay. The poet and his little horse are feeling cold between the woods and a frozen lake. It happens to be the darkest evening of the year.
شاعر اکیلا نہیں ہے۔ اس کے پاس ایک گھوڑا ہے اور یہ گھوڑا چھوٹا ہے۔ وہ اور اس کا گھوڑا بہت سا وقت اکٹھے گزارتے ہیں وہ اپنے چھوٹے گھوڑے کا نفسیاتی تجزیہ کرتا ہے اور اندازہ لگاتا ہے کہ اس کا گھوڑا سوچ رہا ہے کہ اس جگہ کے درمیان میں رکنا عجیب و غریب ہے، جہاں نہ کوئی نظر آتا ہے اور نہ ہی قریب کوئی فام ہاؤس ہے اور نہ کوئی نظر آتا ہے۔ شاعر اور اس کا گھوڑا جنگل اور جمی ہوئی جھیل کے درمیان سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں۔ یہ سال کی تاریک ترین رات واقع ہوئی ہے۔
Stanza:
He gives his harness bells a shake
To ask if there is some mistake.
The only other sound’s the sweep
Of easy wind and downy flake.
وہ اپنے ساز کی گھنٹیوں کو زور سے ہلاتا ہے
یہ پوچھنے کے لئے کہ آیا یہاں رکنا ہماری کوئی غلطی تو نہیں
اور آنے والی مزید آوازیں تو بس
ہلکی ہوا کے چلنے اور برف کے نرم گالوں کے گرنے کی ہیں
Reference:
These lines have been taken from the poem “Stopping by woods on a snowy evening” written by Robert Frost.
Context:
Even though the poet can read his little horse’s mind, the horse can’t talk back. He chooses the option of shaking is harness bells to get his attention.
اگرچہ شاعر اپنے جھوٹے گھوڑے کے ذہن کو پڑھ سکتا ہے لیکن گھوڑا جوابی گفتگو نہیں کر سکتا۔ وہ اپنے مالک کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنے ساز و یراق کی گھنٹیوں کو جھٹکا دینے کا انتخاب کرتا ہے۔
Paraphrase:
The horse cannot stand in chill any longer and is losing its spirit. Even though the poet can read his little horse’s mind, the horse cannot express his feelings. He has some harness bells on his back and gives them a little shake in order to ask his master if there is something awry or a problem. I am losing my spirit. In addition to the sound of harness bells, the only other sounds are of a slight wind and of falling snow.
گھوڑا مزید سردی میں زیادہ دیر تک کھڑا نہیں رہ سکتا اور ہمت ہار رہا ہے۔ اگرچہ شاعر اپنے چھوٹے گھوڑے کے ذہن کو پڑھ سکتا ہے، گھوڑا اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتا۔ اس کی کمر پر کچھ ساز و یراق کی گھنٹیاں ہیں وہ اپنے مالک سے یہ پوچھنے کے لیے کہ آیا یہاں کچھ غلط ہے یا کوئی مسئلہ ہے ان کو ہلکا سا جھٹکا دیتا ہے۔ میں اپنی ہمت ہار رہا ہوں۔ ساز و یراق کی گھنٹیوں کے علاوہ صرف دوسری آوازیں ہلکی ہوا کے چلنے اور برف کے گرنے کی ہیں۔
Stanza:
The woods are lovely, dark and deep.
But I have promises to keep,
And miles to go before I sleep.
And miles to go before I sleep.
جنگل دلکش، تاریک اور وسیع ہے
لیکن مجھے تو وعدوں کو نبھانا ہے
اور مجھے سونے سے پہلے میلوں دور جانا ہے
اور مجھے سونے سے پہلے میلوں دور جانا ہے
Reference:
These lines have been taken from the poem “Stopping by woods on a snowy evening” written by Robert Frost.
Context:
Even though the poet can read his little horse mind, the horse can’t talk back. He chooses the option of shaking his harness bells to get his attention.
اگرچہ شاعر اپنے چھوٹے گھوڑے کے ذہن کو پڑھ سکتا ہے لیکن گھوڑا جوابی گفتگو نہیں کر سکتا۔ وہ اپنے مالک کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنے ساز کی گھنٹیوں کو جھٹکا دیتا ہے۔
Paraphrase:
The poet admits to have a great passion for the dark beautiful snowy woods, but he tells us he has got things to do, people to see and places to go. He has got a long way to go before he can take rest. So, he has miles to cover before going to bed.
شاعر مانتا ہے کہ وہ تاریک خوبصورت برفانی جنگل کو بے حد پسند کرتا ہے لیکن وہ ہمیں بتاتا ہے کہ اسے آرام کرنے سے پہلے بہت سے کام کرنے ہیں، لوگوں سے ملنا ہے، کی جگہوں پر جانا ہے۔ سونے سے پہلے میلوں دور کا سفر طے کرنا ہے۔
Hey..i kike ur notes..they are too helpful THANKS..but i downloaded yiur free ilm app..it doesn’t work on my phone…plz fix it kindly….
Download kasa kara asa kio batiya ga mujy
I wanna say that soon nine syllabus will change na ! So plzzzzzzz 🥹🤌🏻 make the notes early for them ,when books comes in market ,them fastly uploaded the notes plzzzz😭🫶🏻🎀